کسان کی قدر کیوں نہیں اور وہ فقیر سے بھی بدتر کیوں ہے
اسلام علیکم میرے پیارے بھائیو اور دوستو
نہ تو میں کالم نگارہو ں اور نہ ہی میں مفکر کسان کی قدر کیوں نہیں مضمون اس لیے لکھ رہا ہوں کہ تاکہ آپ کو بتا سکوں
ایک کسان کی زندگی کیسی ہے
کسان صبح سے لے کر شام تک کام کرتا ہے اور وہ بدلے میں ایک روپیہ
گھر میں نہیں لے کہ آتا جبکہ مزدور صبح 8بجےسے لے کر چار بجے تک کام کرتا ہے تو ہزار
روپے کما لیتا ہے جبکہ کسان انپی زمین پر ہی صبح سے لے کر شام تک کام کرتےہے اور کائنات کو اپنے ہاتھوں سے بیج بو کر گندم اور
چاول اور سبزیاں پیدا کرکےدیتاہے اور اُس
کے بعد وہ فصل تیار ہو کر بازاروں میں فروحت
کے لیے چلی جاتی ہے اور لوگوں اُس کو خریدہ کر استعمال تو پھر کسان کی قدر کیونکہ
نہیں -آپ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ کسان کی قدر کیوں نہیں کسان تو بڑا خوش
حال ہے وہ تو کسی تکلیف میں نہیں ہے اس کو پیسے مل جاتے ہیں وہ بڑی آسانی سے زندگی
گزار سکتا ہے توآج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کسان کی قدر کیوں نہیں اور کسان کتنا خوشحال
اور کتنا خوش نصیب ہے اور آپ لوگ کیوں اس کی قدر نہیں کرتے اس سارے سوال اور جواب کا
میں آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں کہ کس طریقے سے کسان کی قدر نہیں ہے۔
نمبر.1 ۔صبح سے لے کر شام تک کسان دن رات محنت کرتا ہے جبکہ
وہ اپنے گھر کے لئے اوراپنے بچوں کے لئے بھی
ایک روپیہ رات کو نہیں لے کر سکتا۔
نمبر.2۔اگر فرض کریں اس نے کچھ جانور رکھے بھی ہوئے ہیں تو وہ
ہر وقت تو اس کے جانور دودھ نہیں دیتے اور وہ دودھ دیتے بھی ہیں تو وہ سمجھ لیں کہ
جو لینے والا ہوتا ہے وہ اس قمیت پر لیتا ہے جیسے پانی خرید رہا ہو ہے جس کی وجہ سے کسان دووھ اس بھیجنے
کربھی ہر روز یہ مہینہ کے بعد رقم اپنے گھر نہیں لےسکتے کیونکہ اُس نے جو فصل کیوں
کے اس نے جو فصل لگائی ہوئی ہے اس کو تیار کرنے میں اس کو چھ ماہ گزرے گے اور اگر وہ
جانوروں کا دودھ بیچتا بھی ہے تو اس کے پیسے اس فصل کو تیار کرنے میں لگ جاتے ہیں وہ
اپنے گھر میں ایک روپے نہیں لے کر آ سکتا۔
نمبر.3۔ اور جب فصل 6 ماہ کے بعد تیار ہوتی ہے تو خدانخواستہ اللہ کی
طرف سے اس کے اوپر کوئی مصیبت آ جاتی ہے اوراس کی فصل تباہ ہو جاتی ہے تو اس کی ساری
سال کی محنت ضائع ہو جاتی ہے اور وہ پھر کسا ن اسی
جگہ پر کھڑا ہو جاتا جس جگہ پر وہ پہلے تھاہے اور اس کے بدلے میں وہ قرضے
کی مدد میں چلا جاتا ہے اور اس کے بعد فصل تباہ ہونے کی کوئی انشورنس نہیں ہے تکہ کسان کو اس کے بدل میں پیسے مل جائے ۔
نمبر.5۔ جبکہ کسان مہنگی ترین کھادیں اور مہنگا ترین تیل لے
کر وہ فصل تیار کرتا ہے جبکہ اس کو بدلے میں قیمت کم ملتی ہے تو وہ کسان قرضے میں ڈوبتا
جاتا ہے اور زندگی ایک فقیر کی طرح ہو
جاتی ہے جبکہ فقیر کی زندگی کسان سے بہتر ہوتی
ہے اور اس کسان خودکشی کریں کو تیار ہو
جاتا ہے اس لیے میں کہتے ہوں کہ کسان کی قدر کرو ۔ یاد رکھنا کہ تم لوگ اس وقت کو
دیکھو گے جب آپ مہنگے داموں باہر سے گندم اور چاول خریدو گے تو پھر اس وقت آپ کو کسان
کی قدر یاد آئے گی اور آپ کہیں گے کہ کسان بہتر ہے اور آپ پھر کسان کی قدر کر و گے۔تو اُس وقت بہت دیر
ہو چکی ہو گی کیونکہ کسان بھی اپنی بہتر زندگی گزرنے کے لیے زراعت کے پیشہ سے دور
ہوتا جا رہے ۔
صفحہ نمبر دو پر میں آپ کو بتاؤں گا کہ
کسان کیوں مر رہا ہے




No comments:
Post a Comment